13 ستمبر، 2025، 8:03 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

غرب اردن کے الحاق پر احتجاج اور غزہ میں قتل عام پر خاموشی، عرب ممالک کی غیر متوازن پالیسی

غرب اردن کے الحاق پر احتجاج اور غزہ میں قتل عام پر خاموشی، عرب ممالک کی غیر متوازن پالیسی

مغربی کنارے کے الحاق کے معاملے میں ریاض اور ابوظہبی کا مؤثر کردار اور غزہ میں جاری وحشیانہ قتل عام پر بے رخی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب ممالک فلسطینی عوام کی حفاظت میں یکساں کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل فرانس اور سعودی عرب نے مشترکہ طور پر ایک نشست بلائی جس میں دو ریاستی حل اور فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے موضوع پر غور کیا گیا۔ اس مہم میں کینیڈا، آسٹریلیا، اسپین سمیت کئی مغربی اور غیر عرب ممالک بھی شامل ہوئے۔

اس دوران اسرائیلی حکام نے کھلے عام اعلان کیا کہ وہ مقررہ وقت تک مغربی کنارے اور غزہ کو ضم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے۔ یہ مؤقف اُس وقت شدت اختیار کرگیا جب انتہا پسند صیہونی وزیر بزالل اسموتریچ نے منصوبہ "E1" کے تحت مغربی کنارے کے الحاق کا اعلان کیا۔

اسی پس منظر میں متحدہ عرب امارات نے صہیونی وزیرِاعظم کو ایک باضابطہ خط میں آگاہ کیا کہ ایسے کسی بھی منصوبے کا مطلب ابو ظہبی–تل ابیب تعلقات کی معمول پر واپسی کا خاتمہ ہوگا۔ اس کے بعد عبرانی روزنامہ یروشلم پوسٹ نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب نے بھی تل ابیب کو اسی نوعیت کا انتباہ جاری کیا ہے۔ مزید برآں، صرف 24 گھنٹے بعد خلیج فارس تعاون کونسل کی جانب سے اسرائیل کو الٹی میٹم جاری کیا گیا کہ مغربی کنارے کے الحاق کا منصوبہ ناقابل قبول ہے، جس کے بعد ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا کہ نتن یاہو نے یہ معاملہ باضابطہ طور پر حکومتی ایجنڈے سے خارج کردیا ہے۔

گزشتہ دو برسوں کے دوران عرب ممالک کی جانب سے غزہ میں جاری قتلِ عام پر سخت ردِعمل نہ دینے کے باعث یہ سوال زور پکڑ چکا تھا کہ کیا واقعی خطے کے عرب ممالک اسرائیل پر کوئی مؤثر دباؤ ڈال سکتے ہیں؟ لیکن حالیہ پیش رفت نے واضح کر دیا کہ جب یہ ممالک سنجیدہ اور متحد ہوں تو وہ اپنی پوزیشن اور اثرورسوخ کے مطابق مشرقِ وسطی کی سلامتی اور سیاسی منظرنامے پر گہرا اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دو ریاستی حل ایک ناقابل عبور سرخ لکیر

سعودی عرب کے سابق بادشاہ عبداللہ بن عبد العزیز نے 2002 میں جو منصوبہ پیش کیا تھا، وہ اسرائیل-فلسطین تنازعے کے حل کے لیے ایک پرانا عربی اقدام سمجھا جاتا ہے۔ اس منصوبے کو بعد میں عرب امن منصوبہ کے نام سے شہرت ملی۔ اس کی بنیاد دو ریاستوں کے تصور پر رکھی گئی تھی، یعنی 1967 کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام، جس میں مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دینا شامل تھا۔

شاہ عبداللہ نے زور دیا تھا کہ صہیونی حکومت کو تمام مقبوضہ علاقوں سے مکمل انخلا کرنا ہوگا، جن میں مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی بھی شامل ہیں، اور فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا ہوگا۔ اس طرح امریکہ کے سلامتی سے متعلق کردار کو مشرق وسطی میں ایک امن معاہدے کے ذریعے مضبوط بنانے کا موقع ملتا۔ اس منصوبے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر ایک فلسطینی ریاست قائم نہ کی گئی تو پائیدار امن ممکن ہی نہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ چونکہ عرب دنیا اور بعض مغربی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل کرچکا تھا، اس لیے یہ قبضے کے خاتمے کے لیے ایک روڈ میپ ثابت ہوسکتا تھا۔ لیکن سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کی تین دہائیوں کی ناکام کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ اسرائیل کی توسیع پسندی کے مقابلے میں ایسے منصوبے کمزور ہیں۔ تل ابیب کی توسیع پسندانہ پالیسی اس امن منصوبے کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

حالیہ دنوں میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے اسرائیل کے ایسے اقدامات کی مخالفت کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر الحاق کی کوششیں جاری رہیں تو وہ تعلقات کی بحالی کے عمل سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ یہ مؤقف دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ شاہ عبداللہ کے منصوبے کی روح آج بھی زندہ ہے۔

تجزیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ موقف نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کی عکاسی کرتا ہے بلکہ مشرق وسطی کے استحکام کو یقینی بنانے کی ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ بھی ہے۔ یہ منصوبہ سفارتی حلوں پر زور دیتا ہے، جس کے ذریعے تنازعات کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے اور اقتصادی و سلامتی کے شعبے میں تعاون کی راہیں کھولی جاسکتی ہیں۔ تاہم اصل رکاوٹ اسرائیل کی سنجیدہ مذاکرات سے گریز ہے۔ صہیونی حکومت کی اصل ترجیح یہ ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کو مزید پھیلائے اور عرب زمینوں میں جڑیں مزید گہری کرے۔

ٹرمپ کے ساتھ قربت اور اخوان المسلمین کے ساتھ دشمنی

ریاض اور ابوظہبی، جو مشرق وسطی کی قدامت پسند سنی طاقتیں سمجھی جاتی ہیں، نے مغربی کنارے کی واضح حمایت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہاں محمود عباس کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے جو ان کا روایتی اتحادی ہے۔ اس حمایت میں مالی امداد، سفارتی پشت پناہی اور اسرائیل پر دباؤ شامل ہے تاکہ زمینوں کے الحاق کو روکا جاسکے۔ یہ سب کچھ دو ریاستی حل کو مضبوط کرنے کی بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ تاہم ان دونوں ممالک نے حماس کے زیر انتظام غزہ پر زیادہ توجہ نہیں دی۔

اس عدم دلچسپی کی بنیادی وجہ حماس کے ساتھ ان کی گہری دشمنی ہے۔ حماس کو اخوان المسلمین کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے، جسے سعودی عرب اور امارات اپنے قدامت پسند انداز حکومت کے لیے نظریاتی خطرہ سمجھتے ہیں۔ ترکی اور ایران کی طرف سے حماس کی حمایت نے بھی اس رجحان کو مزید بڑھایا۔ اسی طرح امریکہ کے ساتھ قریبی ہم آہنگی نے سعودی اور امارات کو مغربی کنارے پر زیادہ توجہ دینے پر مجبور کیا تاکہ مشترکہ سلامتی اور اقتصادی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ یہ پالیسی خلیج فارس میں استحکام برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ علاقائی حریفوں کے اثرورسوخ کو روکنے میں مدد دیتی ہے۔

جیو پولیٹیکل رقابت کے تناظر میں خلیج فارس کے جنوبی کنارے کے یہ ممالک مغربی کنارے کی حمایت کو ایران اور ترکی کے فلسطین میں اثرورسوخ کے مقابلے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، جبکہ غزہ کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ اخوان المسلمین سے قریبی تعلق رکھنے والی حماس ان کے نزدیک ایک ایسا نظریاتی خطرہ ہے جو ان کے حکومتی ماڈلز کو چیلنج کرسکتا ہے۔ یہی دشمنی ان ملکوں میں اخوانی تحریک کے دباؤ اور اس کی سرکوبی سے جڑی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کو وہ ایک زیادہ محفوظ آپشن سمجھتے ہیں۔

ترکی، جو اردوغان کی قیادت میں حماس کو اپنا علاقائی اثر بڑھانے کے لیے استعمال کرتا ہے، اور ایران، جو حماس کو عسکری مدد فراہم کرکے اسرائیل کے اردگرد آگ کا حصار بنانے کی کوشش کرتا ہے، ان دونوں کے ساتھ مقابلہ بھی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور اماراتی رہنما محمد بن زاید کو مغربی کنارے پر مرکوز رکھتا ہے تاکہ طاقت کا توازن برقرار رہے۔ حماس مخالف پالیسیوں کو آگے بڑھانے والے امریکہ کے ساتھ ہم آہنگی اس رجحان کو مزید تقویت دیتی ہے اور معاہدہ ابراہیمی جیسے اقتصادی مفادات کو بھی یقینی بناتی ہے۔

حاصل سخن

حقیقت یہ ہے کہ اگر سعودی عرب اور امارات جیسے قدامت پسند سنی ممالک ذاتی اور قومی مفادات سے بالاتر ہو کر غزہ کے بحران پر خصوصی توجہ دیتے تو صہیونی حکومت اس قدر کھلے عام اور وحشیانہ انداز میں عورتوں اور بچوں کے قتل عام کو اپنی پالیسی کا حصہ نہ بناتی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کے بین الاقوامی منصوبوں اور ان کے مسلط کردہ ایجنڈے نے مسلم عرب ممالک کو ان کی شرعی ذمہ داریوں سے غافل کر دیا ہے۔ اس پس منظر میں یہ کہنا درست نہیں لگتا کہ عرب ممالک نسل کشی کو روکنے سے عاجز ہیں؛ کیونکہ مغربی کنارے کے الحاق کے معاملے پر ان کے مضبوط اور متحدہ مؤقف نے خود نتن یاہو کو پیچھے ہٹنے اور صہیونی انتہا پسندوں کے ایجنڈے کو وقتی طور پر روکنے پر مجبور کر دیا۔

News ID 1935331

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha